Pages

Saturday, September 21, 2013

ڈاکٹر دلہن ہر ایک کی خواہش مگر پاکستان طبی شعبے میں بحران کا شکار



کراچی…محمدر فیق مانگٹ…پاکستان میں ہر مرد چاہتا ہے کہ اس کی ہونے والی دلہن ڈاکٹر ہو، تاہم میڈیکل شعبے 
سے وابستہ لڑکیوں کی اکثریت شادی کے بعد اپنا کیریئر جاری نہیں رکھ پاتی جس سے ملک کو اس شعبے میں شدید بحران کا سامنا ہے، یہ بات سنگا پور کے نشریاتی چینل نے اپنی رپورٹ میں کہی، رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈاکٹر دلہن کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے ۔پاکستان میں دلہن ایک ،ورکنگ وومن اور گھریلو خاتون جیسیدونوں خصوصیات کے ساتھ ان سے شادی معاشرے میں برتری کا احساس لیے ہوئے ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر لڑکیوں کے قبل ازوقت کیر ئیر خاتمے کی شرح خطرنا ک حد تک زیادہ ہے۔ یہ ایسی داستان ہے جو پاکستان کے ہر گھر میں دہرائی جارہی ہے۔پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے داخلے کی شرح بہت زیادہ ہے، یہ شرح اندازاً 30فی صد لڑکے اور70فی صد لڑکیوں کے داخلے کی ہے۔ شادی کے بعد ان 70 فی صد خواتین ڈاکٹروں کی اکثریت عملی زندگی میں نہیں آتیں جس کے باعث ملک ان کی خدمات سے محروم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے طبی میدان میں ایک خلاء پیدا ہوجاتا ہے جسے پورا نہیں کیا جا رہا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی معاشرے کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ڈاکٹر دلہن ایک خاندانی مرتبے کا سبب تو ہو سکتی ہے لیکن ایک میڈیکل ڈگری بہتر خاندانی زندگی کی اہلیت نہیں ۔پاکستان میں ڈاکٹروں کی شدیدکمی پر ماہرین نے یہاں تک تجویز دی کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے خواتین کے لئے کوٹا مخصو ص کیا جائے۔ڈاکٹر دلہن کو ورکنگ وومن اور ہاوٴس وائف کا ایک مکمل مرکب سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ، انہیں اپنے خاندان کی خاطر پروفیشنل زندگی کو خیر باد کہنا پڑتا ہے ۔ اس سے پہلے امریکی خبر رساں ادارے کی بھی اسی سلسلے میں ایک رپورٹ منظر عام پرآ چکی ہے کہ پاکستان میں میڈیکل کالجز میں1991 میں صنفی امتیاز پر کوٹا ختم کردیا گیا جس کے بعد مردوں کی تعد اد طبی کالجز میں بتدریج کم ہو گئی اور اب ان کالجز میں80سے85فی صد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں، کراچی کے ڈاوٴ یونی ویرسٹی میں70فی صد طالبات ہیں جب کہ امریکی میڈیکل کالجز میں خواتین کے داخلے کی شرح47فی صد ہے۔پاکستا ن بھر میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے پاس مجموعی طور پر132988ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں ان میں سے58789لیڈی ڈاکٹر ز ہیں۔جب کہ طبی شعبے میں اسپشلسٹ کی مجموعی تعداد 28686ہے جن میں7524خواتین ہیں۔ ڈاوٴ یونی ورسٹی نے 2010کے سیلاب کے سندھ کے متاثرہ علاقوں میں اپنے طلباء کو بھیجنے کے بارے غور کیا لیکن طالبات کی زیادہ تعدا د ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرپائے۔ ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کئی ڈاکٹروں اور ماہرین کی رائے بھی شامل کی ہے ڈاکٹر لڑکی سے شادی ہر مرد کا خواب ہے، ان میں لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی ڈاکٹر حنا پرویز ہے جو طالبعلمی کے دور میں ایک ہونہار طالبہ تھی لیکن آج اس کے پا س اپنے بچوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے کوئی کتاب سکون سے پڑھنے کا وقت نہیں۔لاہور کے ایک میڈیکل کالج فاطمہ میموریل کی طلباء امور کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نورین فاروق کا کہنا ہے کہ جب طالبات یہاں آتیں ہیں تو بہت پر جوش ہوتیں ہیں لیکن جیسے ہی ان کی شادی ہوتی ہے کچھ نہ کچھ ہو تا ان کے کیرئر کے ساتھ ہو جاتا ہے کبھی خاندان کبھی سسرال والوں کے دباوٴ سے یہ فیلڈ چھوڑ جاتیں ہیں۔ڈاکٹر نورین کا کہنا تھا کہ جب وہ جنرل چیک اپ یا بچوں کے لئے اسپتال جاتی ہے تو وہ وہی ٹھہرنا پسند کرتی ہیں اور گھریلو کام کاج ،کھانا پکانا اور صفائی سے بھاگتی ہیں وہ بس پریکٹس کرنا اور مریضوں کا خیال رکھنا چاہتی ہے۔ایک میڈیکلطالبہ کی والدہ نفیس سعید کا کہنا تھا کہ ہمارے وقت میں ایک لڑکی کی پرورش اور تعلیم اہم تھا لیکن اب ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی ڈاکٹر بنے یا ان کی بہو ڈاکٹر ہو،اب یہ ایک مانگ بن چکی ہے۔ کبھی دلہن کے لئے لمبا قد، گوری چٹی، دلکش شخصیت اور اچھے خاندان سے ہونے کا معیار مانا جاتا تھا لیکن آج دلہن کا ایم بی بی ایس یا ڈینٹل سرجن ہو نا ضروری ہے۔ایک ڈینٹسٹ ڈاکٹر حرا ہاشمی کا کہنا تھا کہ یہ بات ایک سماجی حیثیت بن چکی ہے کہ لوگ اپنی بہو کو ایک ڈاکٹر کے طور پر بیان کریں،اگر کسی کو صرف ایک دلہن ڈاکٹر چاہیے کہ وہ صرف کھانا پکائے تو انہیں ایک ڈاکٹر لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک اکیڈمک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ میڈیکل طلباء و طالبات کے لئے کچھ مدت تک کام کے بانڈ کی شرط عائد کی جائے، کم از کم دو سال تک انہیں کام کرنے کا پابند کیا جائے۔ کئی رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں لڑکے پڑھتے نہیں اسی وجہ سے لڑکیوں کو میڈیکل اور دیگر شعبوں میں میرٹ پر زیادہ داخلے مل جاتے ہیں ، یہ کہنا کسی حد تک درست ہے تاہم لڑکیوں کے عملی زندگی میں نہ آنے کے باعث جو نقصان ملک کو پہنچ رہا ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کو چاہئے کہ خواتین ڈاکٹروں کو عملی زندگی میں لانے سمیت دیگر پالیسیاں واضح کرے۔

No comments:

Post a Comment